Malaal series سلسلہ ملال



سلسلہ ملال از قلم انوشہ محمد رفیق آرزو





اے آنکھ تیری خیانت

اے آنکھ تیری خیانت نے، کیسا دیا ملال مجھے۔۔

ہر رات سوتے جگتے، میں اب تیرے شر سے پناہ مانگوں گی۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا جس کی اسکرین سے چمکتی روشنی سے اس کا چہرہ روشن ہو رہا تھا۔ وہ مسلسل رو رہی تھی اس کا چہرہ بھیگ چکا تھا۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر کوئی ویڈیو چل رہی تھی۔ وہ اپنی آنکھیں بند کرتی پھر کھول دیتی، مسلسل رو رہی تھی۔ اسے تکلیف ہو رہی تھی اور اس تکلیف کو ختم کرنے کا اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے جھٹ لیپ ٹاپ بند کردیا اور بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے فوراً شاور لیا اور وضو کرکے جانماز بچھائی۔ وہ بہت رو رہی تھی اور اب اس کی سسکیاں بلند ہورہی تھی اس نے رکعت باندھی۔ سورہ فاتحہ شروع کی مگر اس کے الفاظ ٹوٹ رہے تھے۔ اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ اس کے سامنے وہ ویڈیو آنے لگی اور کئیں ویڈیوز آنے لگیں۔ وہ پھر اپنے خیال کو جھٹکنے لگی اور اپنا دھیان نماز میں لگانے لگی۔ اس نے پھر سے سورہ فاتحہ شروع کی پھر اس کی زبان لڑکھڑا گئی الفاظ ٹوٹ گئے۔ سورہ فاتحہ مکمل نہ ہو سکی۔ بار بار اس کے سامنے اس کے گناہ آ رہے تھے۔ اس نے ہار نہیں مانی پھر سے بسم اللہ پڑھی، پھر سے سورہ فاتحہ شروع کی مگر ندارد۔ وہ اھدنا الصراط پہ آ کر الفاظ بھول جاتی تھی۔ وہ اور زور زور سے رونے لگی۔ اب اس کی برداشت ختم ہو رہی تھی وہ جھٹ سے سجدے میں جاگری۔ جب سجدے میں گئی تو آنسوؤں سے چہرہ تر تھا۔ وہ روتے ہوئے مسلسل کہہ رہی تھی۔ "اللہ مجھے معاف کر دیں۔ اللہ مجھے معاف کردیں۔ میں نے بہت کوشش کی مگر نہیں کرپارہی میں کیسے خود کو روکوں؟ میں کیسے خود کو بچاؤں؟ یا اللہ! تو ہی مجھے بچا لے." وہ رو رہی تھی اور کمرہ اس کی سسکیوں سے بھر چکا تھا. یکایک دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ وہ پھر رونے لگی، کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور اسے سجدے سے اٹھایا تھا۔ اس کی نماز نہیں ہوئی اس کا سجدہ نہیں ہوا تھا۔ وہ قبول نہیں کی گئی، ہاں! وہ قبول نہیں کی گئی. اس نے بھیگی پلکیں اٹھائیں
سامنے اس کی بہن اس کے کندھے پر جھکی ہوئی تھی۔ وہ اسے بہت دکھ اور ملال سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ ایسے کیوں روتی ہے؟ مگر اس کی زبان الفاظ سے خالی تھی .. وہ جانتی تھی جب بات اللہ سے شروع کردی جائے تو پھر انسانوں سے نہیں کہنی چاہیے۔ اسکی بھیگی آنکھوں میں بہت دکھ اور ملال تھا۔ جیسے اس نے خود ہی اپنا اعتماد توڑا ہو۔ وہ اپنی بہن کو دیکھ کر اس سے لپٹ گئی اور زور زور سے رونے لگی۔ اب بلند آواز کمرے کے سکونت کو توڑ رہی تھی۔ وہ کئیں لمحے ایسے ہی روتی رہی پھر اسکی بہن نے اسے خود سے الگ کیا اور اس کا بھیگا چہرہ صاف کیا۔ اسے اس پر بہت ترحم آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس کے گناہ اس کی بہن پرافشاں ہوگئے تو کیا وہ اس کے ساتھ ایسے بیٹھے گی؟ کیا وہ اس سے محبت کرے گی؟ جواب ہمیشہ اسے 'نہ' میں ہی ملتا تھا۔ اسے لگتا تھا وہ خود بھی اپنے آپ سے نفرت کرنے لگی ہے۔ کچھ گناہ ہمیں اپنی ہی نظروں میں گرا دیتے ہیں۔ مگر اللہ کتنا غفور الرحیم ہے۔ کسی کے سامنے اس کی بات نہیں کی، اس کا راز نہیں کھولا، اس کے گناہوں کو سب کے سامنے لا کر اسے رسوا نہیں کیا۔۔۔ 
"میں نہیں جانتی تم کیوں رو رہی ہو؟ کیا بات ہے جو تمہیں اس طرح بے چین کیے ہوئے ہے۔ میں تم سے پوچھوں گی بھی نہیں ۔۔ کیونکہ جو بات اللہ سے کر دی جائے، جو اس کے سپرد کر دیا جائے اسی لوگو کے سامنے نہیں کہا جاتا۔ خاموش ہو جاتے ہیں۔۔ اللہ کی مدد اور اس کے رحم کا انتظار کرتے ہیں۔۔ وہ بہت غفور الرحیم ہے۔۔ تمہارے آنسوؤں کو یوں ضائع نہیں ہونے دے گا۔۔۔  میں تمہیں بس اتنا کہوں گی کہ گناہ پر صبر کرنا بھی ثواب ہے۔۔ اپنے گناہوں پر صبر کرنا سیکھو! اللہ تمہارے دل کو سکون عطا کرے اور تمہارے ہر ملال کو ختم کردے"۔جب وہ بہت رو چکی تو اس کی بہن نے اس سے کہنا شروع کیا۔ اپنی بات کے اختتام پر اس نے اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ جب ہم ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں تو ہم اکیلا پن چاہتے ہیں۔۔۔ صرف اللہ کو اپنے پاس چاہتے ہیں۔۔ وہ جانتی تھی اسی لئے اسے اس کے رب کے سپرد کرکے چلی گئی۔۔ اس کے جاتے ہی وہ پھر رونے لگی زار و قطار رونے  لگی آنکھوں کے نیچے واضح ہلکے پڑھ رہے تھے چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور رونے کی وجہ سے اب ناک سے پانی نکلنے لگا تھا۔۔ وہ آج کتنا روئے گی؟ اور وہ کتنا رو چکی ہے؟ اسے اس بات کا ذرا خیال نہیں تھا.. وہ بس اپنے اللہ کو واپس چاہتی تھی۔۔ وہ پھر سے سجدے میں گر گئی ۔۔ اس سے تو ایک سورۃ تک نہیں پڑھی گئی۔۔ وہ بار بار ہدایت مانگنے سے روک دی جاتی۔۔ اس کی زبان کو روک دیا جاتا۔ جیسے اس کے دل پر ہی قفل لگا دیا گیا ہو۔۔  وہ سجدے میں گری یہی سوچ رہی تھی۔۔ اسے اللہ سے بہت ڈر لگ رہا تھا۔۔ اس سے زیادہ اسے اپنے آپ سے نفرت ہو رہی تھی۔۔ اللہ تو غفور الرحیم ہے مگر کیا وہ خود سے کبھی نظریں ملا پائے گی؟ کیا وہ کبھی خود کو معاف کر پائے گی؟ وہ سجدے میں گری پڑھ رہی تھی۔ "اللہم مغفرلی! اللہم مغفرلی! اللہم مغفرلی!" کسی احساس کے تحت اس نے سجدے سے سر اٹھایا اور شیلف سے قرآن اٹھا لائی۔۔ وہیں جا نماز پر بیٹھ کر اس نے قرآن کھولا۔ قرآن کھولتے ہی سب سے پہلی نظر اس کی جس آیت پر پڑی وہ تھی۔۔ 
"والله يحب التوابين"
"اور اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے" اس کے آنسو پھر بہنے لگے۔  وہ پھر زار و قطار رونے لگی۔۔ اس نے قرآن بند کرکے اسے سینے سے لگا لیا۔۔ کتنی محبت کرتا ہے اس کا رب اتنے بڑے گناہ کے بعد بھی وہ اس سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے وہ کیسے ہے اتنا رحیم؟؟ ہاں! وہ ہے اس لائق کے اسے رب العالمین پکارا جائے ۔۔ ہاں وہ ہے اس لائق کے اپنا آقا، مولا اور والی مانا جائے۔۔۔ ہاں! وہ ہے اس لائق کے اسکی عبادت کی جائے۔۔۔ اس سے مانگا جائے۔ ۔۔ روتے روتے اسکی نظر بند پڑے لیپ ٹاپ پر پڑی۔۔ اسکے لب بھینچ گئے۔۔ وہ کچھ سوچ کر اٹھی اور قرآن کو شیلف پر رکھا۔۔ پھر خون بھری نظروں سے لیپ ٹاپ کو دیکھتی قدم قدم چل کر اس تک آئی۔۔۔ اس نے لیپ ٹاپ اٹھایا اور پوری شدت سے اسے دیوار میں دے مارا پھر اپنی مٹھیاں بھینچ کر ٹوٹے پڑے لیپ ٹاپ کو دیکھتی رہی۔۔ اسکی آنکھ سے ننھے ننھے قطرے گر رہے تھے۔۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے جھک گئی اور زور زور سے رونے لگی۔۔ کیا مل گیا اسے یہ کر کے؟ کیا حاصل کرلیا اسنے؟ کیوں کی اس نے آنکھوں کی خیانت؟ آنکھوں کی خیانت سے بھلا کیا ملتا ہے؟ نہ دنیا میں سکون اور آخرت میں ایسا برا بدلا... اس کا ملال ہر چیز پر حاوی تھا، ہر احساس پر ہر دلاسے پر۔ ۔ وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ اللہ معاف کرنے والا ہے اور یہ بھی سوچ رہی تھی کہ کتنی بار معافی مانگ کر اس نے اپنی توبہ کو توڑا ہے۔۔ اب کس منہ سے جا رہی ہے اللہ کے سامنے؟ کیا منہ دکھائے گی وہ اللہ کو حشر کے میدان میں؟ اس کا سینا درد سے پھٹ رہا تھا۔۔۔ اس نے سسکیوں کے درمیان کرب سے پکارا "اللہ............." اور چھت کو دیکھنے لگی ۔۔۔ اسکے بھیگے چہرے پر سالوں کا ملال تھا۔۔۔



ختم شد


---------------------------------------------------------------------------------

وہ آنکھ جو جھکی نہیں





 

ہے ملال جسکا مجھے۔۔

وہ آنکھ جو جھکی نہیں

وہ آنکھ جو ڈری نہیں 

وہ دل جو پگھلا نہیں 

وہ سانس جو تھمی نہیں 

وہ سوچ جو مثبت نہیں

وہ نفس جو اچھا نہیں

ہے ملال اسکا مجھے، 

یہ ملال ختم ہوتا نہیں۔۔۔

وہ یونی کی سیڑھیوں پر بیٹھا دونوں ہاتھوں میں سر دیے ہوئے تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہوگیا؟ وہ اپنے آپ کو کیا دلیل دیگا کہ اس نے کیا، کیا ہے؟ اس کی زندگی اب کبھی نارمل نہیں ہوسکتی. وہ انہیں سوچوں میں گِھرا ہوا تھا جب اس کی پیٹھ پر ہلکی سی تھپکی دے کر اس کا دوست اس کے برابر میں آ بیٹھا۔۔
"کیا ہوا یار ایسے کیوں بیٹھا ہوا ہے؟" اس نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا اس کا دوست اس کے ساتھ ہی آ بیٹھا تھا۔۔ لمحہ بھر کو وہ اس سے لپٹ کر رونے لگا۔۔ آنسوؤں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو لہروں کے جوش سے بہہ رہا تھا۔۔ اس کا دوست ششدر تھا۔۔ یہ کیا ہو گیا؟ یہ ایسے کیوں رو رہا ہے؟ "کیا ہوا بھائی کیوں رو رہا ہے۔۔ سب کچھ ٹھیک تو ہے؟" اس نے اسے خود سے الگ کیا اور اسکا بھیگا چہرہ پوچھنے لگا۔۔
"کیا ہوا ہے میری جان؟ کچھ بول تو سہی کیوں رو رہا ہے؟" وہ بہت بے چین ہو گیا تھا. اس کا دوست ایسے رو رہا تھا اس کے دل کو کچھ ہو رہا تھا.. اس نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اس کی آنکھوں میں صدیوں کا درد تھا۔۔ ایسی سرخ آنکھیں اس نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تھیں۔۔ وہ اپنے دوست کو دیکھتا رہا اس کے اندر بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔۔ کیا کہتا؟ کیا،کیا ہے اس نے کیسے بتاتا؟ وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا..
"میں نے بہت غلط کیا ہے.. مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اللّٰہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے۔۔ وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔" وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے رو رہا تھا۔۔ اس کے دوست کو لگا کسی نے اسے برف کی سیل بنا دیا ہے۔۔
"معاف نہیں کرے گی... آخر اس نے ایسا کیا کیا ہے؟" وہ پریشان سا اسے دیکھنے لگا.. کچھ لمحے گزرے۔۔ وہ ایسے ہی روتا رہا.. وہ یونی کے کونے میں سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔ وہاں پر لوگوں کا رش نہیں تھا اِکّا دُکّا لوگ نظر آرہے تھے جو اپنے کام میں مصروف تھے۔۔

"رونا بند کرو اور بتاؤ ہوا کیا ہے؟" اس کا دوست اسکی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا..

"اس نے مجھے منع کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ یہ گناہ ہے! میں نہیں مانا. میں نے اس کے ساتھ غلط کیا. میں نے اس کے ساتھ زبردستی کی۔۔ وہ یہ گناہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ اس کے لیے کسی شخص سے بات کرنا بھی زنا تھا۔۔" وہ آنسوؤں کے درمیان بولا۔۔

کچھ لمحے اس کا دوستوں اسے حیرانی کے عالم میں دیکھتا رہا۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔ اس نے کبھی اس سے نہ ایسی امید کی تھی اور نہ ہی اس نے کبھی ایسی کسی حرکت کے بارے میں اسے بتایا تھا۔۔ ورنہ وہ اسے ضرور روکتا مگر وہ کیا روکتا اصل روک تو ہمارا ضمیر لگاتا ہے۔۔ کیا اس کے ضمیر نے اسے نہیں روکا تھا؟ نہیں مجھے اسے جج نہیں کرنا چاہیے.. مجھے اس کی پوری بات سننی چاہیے۔ اس نے اسے بولنے دیا وہ کہنا شروع ہوا۔۔
"یونی کے شروع کے دن تھے. وہ مجھے اچھی لگی. وہ ایک دن میرے پاس سے گزر رہی تھی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا. وہ ہر بڑا گئی. اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور میری طرف غصے اور حیرانی سے دیکھنے لگی۔ میں مسکرا رہا تھا۔ میں اسے بہت پسند کرتا تھا مگر میرا طریقہ بہت غلط تھا۔ میں نے اس سے اس کا نمبر مانگا۔ اس نے نہیں دیا اور جھڑک دیا۔ اب بات میری انا پر آئی تھی۔ میں اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا پھر میں نے اس کے آئی ڈی کارڈ کے ذریعے سے اس کا نمبر نکلوایا اور اسے میسج کیا۔۔ میں اسے روز میسج کرتا تھا مگر وہ جواب نہیں دیتی تھی۔ دو ہفتے گزر گئے جب اس کا بالکل بھی جواب نہیں آیا تو ایک دن میں نے اسے یونی کے سب سے اوپر والے کوریڈور میں سب کے جانے کے بعد زبردستی روک لیا۔۔ میں نے اسے دھمکایا۔ وہ اکیلی تھی اور وہ ڈری ہوئی تھی۔۔ میں نے اسے اور ڈرایا۔۔ میں اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ میں بس اس سے رابطے میں رہنا چاہتا تھا۔۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر وہ مجھ سے بات نہیں کرے گی۔ تو میں اس کا وہ حال کروں گا جو وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔۔ وہ میرے سامنے گڑگڑائی میں نہیں مانا۔۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مجھے جواب دو گی۔۔ مجھ سے بات کرو گی۔۔۔ اس نے کہا کہ میں پٹھان گھر سے تعلق رکھتی ہوں اور میرا رشتہ بھی ایک پٹھان سے طے ہے۔۔ اگر انہیں ذرا بھنک بھی لگ گئی تو وہ مجھے جان سے مار دینگے ۔ اور یہ گناہ ہے۔ مجھے یہ گناہ نہیں کرنا۔۔ تم بھی توبہ کر لو تم بھی یہ گناہ چھوڑ دو۔۔ میرے سر پر نہ جانے کیسا بھوت سوار تھا؟ میں نہیں مانا۔۔ میں نے اس کی ایک نہیں سنی۔۔ اگلے دن میں نے اسے میسج کیا اس کا جواب آیا۔۔ میں اس سے بات کرتا رہا۔۔ وہ زبردستی مجھے جواب دیتی تھی۔۔ میں نے اسے کئی بار ملنے بلایا۔ وہ نہیں آئی۔۔ تیسرے دن میں نے اسے دوبارہ سے ڈرایا کہ اس بار اگر میرے کہنے پر وہ مجھ سے ملنے نہیں آئی۔۔ تو میں اس کے گھر والوں کو اس کے بارے میں بتا دوں گا کہ تم مجھ سے بات کرتی رہی ہو اور میرے پاس سارے میسج محفوظ ہیں۔۔۔ اگرچہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی مجھ سے" اس نے چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔ وہ بہت رو رہا تھا۔۔ اب اس کی آنکھیں درد کرنے لگی تھیں۔۔ "مگر وہ ڈری ہوئی تھی۔۔۔۔ جو چیز اس کی نظر میں گناہ تھی وہ اس کے گھر والوں کی نظر میں ایسا کفر تھی کہ وہ اس کے لیے اسے جان سے مار دیتے۔۔ میں نہیں مانا میں نے نہیں سنی۔۔۔" وہ سسکیاں بھرتے ہوئے آنسوؤں کے درمیان بول رہا تھا۔۔ وہ کہہ رہا تھا مگر اس کا سانس۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سانس۔۔۔۔ رُک رہا تھا۔۔ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے مٹھی میں بھینچ لیا۔۔ اسے تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔ ہاں اسکا دل رو رہا تھا۔۔
"وہ مجھ سے ملنے بھی آ گئی" وہ ایک دم چیخ کر رونے لگا۔۔۔ اس کے دوست نے اسے سینے سے لگا لیا۔۔ "اور۔۔۔ اور ۔۔اور م۔م میں۔۔ میں اکثر اسے ملنے بلاتا رہا۔۔ وہ کسی نہ کسی بہانے سے آتی رہی اور ایک دن اس نے مجھے میسج کیاآآآ۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ پھر بے ساختہ چیخ اٹھا۔۔ تکلیف برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔۔۔ "وہ ۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ایک۔۔ک خط کا اسکرین شارٹ تھا۔۔ جس میں لکھا تھا۔۔۔۔" وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔ "میں کسی لڑکے سے بات کرنے کو بھی گناہ سمجھتی ہوں۔ اور یہ گناہ میرے لیے معافی کے لائق نہیں ہے۔۔ میں مجبور تھی مجھے دھمکایا گیا تھا مگر میں نے کبھی کسی شخص کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔۔ مگر ہاں! رات کی تاریکی میں، میں نے اس سے بات کی۔۔۔۔ دن کے اجالے میں ، میں اس سے ملی بھی۔۔۔ یہ سب اب میری برداشت سے باہر ہے۔۔۔ میں یہ سب برداشت نہیں کر پا رہی۔۔ میرے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔ میں اب کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گی۔۔۔ آپ لوگوں سے ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔ میں اس شخص کا نام نہیں بتاؤں گی کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ اسے سزا وہ خود دے۔۔ مجھے اللہ معاف نہیں کرے گا۔۔۔ میں بھی خود کو معاف نہیں کرونگی۔۔ اور اس کی یہی سزا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں اور وہ زندگی بھر زندہ رہ کر اس ملال کے ساتھ جئے کہ وہ کبھی مجھ سے معافی نہیں مانگ سکا اور میں نے اسے معاف کر دیا۔۔۔" اس کے منہ سے ایک دم خون نکلنے لگا۔۔ اس کا دوست اک دم گھبرا کر اس کی طرف بڑھا۔۔ مگر اس نے اسے ہاتھ سے دور کردیا۔۔ اور پھر سرخ آنکھیں آسمان کی جانب اٹھائیں اور اپنی بات جاری رکھی۔۔ "وہ اس ملال میں ہر دن مرے گا اور ہر دن روئے گا.. اس کا ضمیر اسے جینے نہیں دے گا اور اس کی مضبوط ارادی اسے مرنے بھی نہیں دے گی.. میں کمزور ہوں۔۔ ہاں! میں بزدل ہوں.. اسی لیے میں اپنے آپ کو ختم کر رہی ہوں.." آخری جملہ کہتے ہوئے وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔ وہ زمین میں دھنس جانے کو تھا۔۔ وہ جینا نہیں چاہتا تھا۔۔ مگر وہ موت کو ایسے گلے بھی نہیں لگانا چاہتا تھا۔۔ اسے ڈر لگ رہا تھا۔۔ مرنے کے بعد وہ کیسے ان آنکھوں کا۔۔۔۔ ان ہاتھوں کا۔۔۔ اس دل کا حساب دے گا۔ وہ کیسے۔۔۔؟ کیسے؟ ان گناہوں کا حساب دے گا.. اس آنکھ کا حساب ۔۔ وہ آنکھ جو جھکی نہیں۔۔۔۔۔ اس کے دوست نے کچھ نہیں کہا سوائے اس کے۔۔۔ کہ "اللّٰہ غفور الرحیم ہے۔۔ اللّٰہ معاف کرنے والا ہے۔۔۔ بہت رحیم ہے۔۔۔ تو یہ مت سوچ کہ وہ تجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔ ہاں اس لڑکی کے ساتھ غلط کیا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے! مگر تو اب پچھتا رہا ہے۔۔ تجھے اس بات کا احساس ہے۔۔ اللّٰہ تجھے معاف کردے گا۔۔ تو اس سے معافی مانگ کر تو دیکھ۔۔ چل! ہم مسجد چلتے ہیں.. اللّٰہ کے سامنے گڑگڑا کر تو معافی مانگ۔۔ ہم امام صاحب سے کہیں گے کہ وہ ہمیں کچھ قرآن پڑھ کر سنائے۔۔ دیکھنا تیرے دل کو سکون آ جائے گا۔۔" وہ مسلسل نفی میں سر ہلا رہا تھا۔۔
"وہ مجھے کبھی بھی معاف نہیں کرے گا.."

"وہ معاف کرے گا تجھے۔۔ تو چل تو سہی۔۔" اس کے دوست نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا.. وہ ہرگز جانے کو تیار نہیں تھا..
"میں کیسے جاؤں گا اسکے سامنے..؟ مجھے ڈر لگ رہا ہے اس سے... میرا دل کانپ رہا ہے.. میرا سینہ پھٹ جائے گا درد سے.... میں نہیں جا سکتا... میں اس کے سامنے کھڑے ہونے کے لائق نہیں.." وہ کہہ رہا تھا۔ اس کی زبان تک لرز رہی تھی۔۔ اس کے پورے وجود میں ایک آگ سی لگی تھی۔ وہ جھلس رہا تھا اس آگ میں۔۔۔ ملال اور پچھتاوے کی آگ کی ایسی تپش ہے تو وہ سوچنے پر مجبور تھا کہ دوزخ کی آگ کا کیا عالم ہوگا؟ یہ خیال ذہن میں آتے ہیں اس نے دونوں ہاتھ میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور زور زور سے کہنے لگا "اللّٰہم اجرنی من النار۔۔۔! اللّٰہم اجرنی من النار۔۔۔!" اس کی آواز میں صدیوں کا کرب تھا۔۔ وہ اپنے آپ کو قابو میں نہیں کر پا رہا تھا اس کا دوست اسے بے حد رحم اور ہمدردی سے دیکھ رہا تھا۔۔ یہ ملال اور پچھتاوے کی آگ تھی، اسے توبہ اور اللہ کا رحم ہی بجھا سکتا تھا۔


ختم شد



Comments

Popular posts from this blog

Novels by Anoosha M.Rafiq Aarzoo

IshqDarAzdawaj Complete Novelette by Anoosha Aarzoo

Author Anoosha Muhammad Rafique (Aarzoo)