Janam by Anoosha Aarzoo

زائم کی محبت اور انتظار کی کہانی۔۔۔

ماہم کی معصومیت اور پیار کی کہانی۔۔

اک خوشی اور اک اقرار کی کہانی۔۔۔

محبتوں کے سفر میں اظہار کی کہانی۔۔۔


Download Janam by Anoosha Aarzoo 

Click the link below to download complete PDF

Mediafire link Janam.pdf

Read on wattpad

Click the link below to read on wattpad 

Wattpad link Janam by Anoosha Aarzoo


Online Read Janam Novel by Anoosha Aarzoo 


"محبت تیری راہوں میں کئیں سفر کیے ہیں۔۔۔


اب تو بھی روٹھ جائے تو ہم کدھر جائینگے۔۔۔۔"


وہ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے چاشنی گُھلے لہجے میں بولا۔۔
"کیا آپ کو اتنی تمیز بھی نہیں ہے کہ کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دیتے ہیں۔۔؟" وہ بیڈ پر کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی۔۔ اور معمول کے مطابق اس پر گرم ہونے کا اپنا فریضہ پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہی تھی۔۔ وہ اس کے اس طرح کہنے پر اک دم ہنس پڑا جیسے ذہن کے پردے پر کوئی یاد لہرائی ہو۔۔ پھر قدم قدم چلتا اس تک آیا جو اسے کھا جانے والے انداز میں گھور رہی تھی۔۔


"ایسے مت دیکھو!" اس نے اک دم کہا اور اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔ وہ اک دم چونکی۔"کیوں؟" لہجے میں واضح خفگی تھی۔۔
"ورنہ تمہارا پیار کرنے کو دل کرے گا" اس نے کہتے ہی اک دم زوردار قہقہہ لگایا۔ جب وہ ایسے ہنستا تھا تو گردن پیچھے کی جانب گراتا تھا۔۔۔ وہ ہنستا بہت خوبصورت تھا۔۔ وہ جو جلی بھنی سی اسے کھری کھری سنانے کے موڈ میں تھی۔۔ اک دم پگھل گئی۔۔ اپنے اردگرد سے بے خبر بس اسے ہنستا دیکھے گئی۔۔۔
"کیا ہوا؟" وہ ہنسنا بھول کر اب اس کی طرف متوجہ تھا جو اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے پلکیں تک نہیں جھپکائیں۔۔ وہ بھی اب اپنی بھوری آنکھیں اس کی گہری نیلی آنکھوں پر جمائے ہوئے تھا۔۔۔
"این چشم ها در سردرگمی بوده است


(اس قدر کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے ان آنکھوں نے)

غرق نشوید، پشتیبانی نمی کنید ..."


(نہ ڈوبنے دیتی ہیں،نہ سہارا دیتی ہیں۔۔۔)


وہ اس ٹرانس سے تب نکلی تھی، جب اچانک ہی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تھی۔۔ وہ اک دم شرمندہ سی ہوگئی تھی۔۔ "الّو کی پٹھی" وہ زیرِ لب بڑبڑائی۔۔ اتنی دھیمی آواز بھی وہ سن گیا تھا۔۔ تبھی اک چھوٹا سا قہقہہ لگاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ دروازے پر نینا بی بی تھیں جو کھانے کے لیے بلانے آئی تھی۔۔


~~~~~~~~~۔


وہ یونی کے بیرونی دروازے کے قریب کھڑی تھی اس کے ساتھ اس کی چند سہلیاں بھی کھڑی خوش گپیوں میں مصروف تھی جب ایک اچھا خاصا موٹا پہلوان جیسا دیکھنے والا لڑکا اس کے قریب آیا اور ایک انتہائی تپانے والی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھنے لگا اس کی آنکھوں میں واضح چھچھورا پن تھا۔۔ سرخ ٹی شرٹ پر مختلف دھاتوں کی چینیں پہنے وہ اس کے بہت قریب کھڑا تھا۔۔ اسے دیکھتے ہی ہر ایک کے گلے میں کڑواہٹ سی گھل گئی۔۔ اور ماہم تو اسے چبا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔


"کیسی ہو میری جان؟"وہ عجیب گنڈوں والے لہجے میں بولا۔۔ ماہم کا دل چاہا کہ وہ اسے دو چار رکھ کے دے مگر پھر نہ جانے کیا سوچ کر ارادہ ترک کر دیا۔۔ وہ بے ہودہ نظروں سے اسے دیکھتا کچھ مزید قریب ہونے لگا تھا کہ کوئی ماہم کے گرد اپنا بازو پھیلا کر اسے خود سے قریب کرتا ذرا دور آگیا۔۔ اب وہ اسے دیکھ رہی تھی جو مسکراتا ہوا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
"ایک ٹلتی نہیں ہے کی دوسری مصیبت گلے پڑ جاتی ہے" اس نے بیزارئیت سے سوچا۔۔


"کیا ہوا بھائی کس کی دوست کو پریشان کر رہا ہے؟" وہ آنکھوں میں انگارے لیے ہلکی سی مسکان لبوں پہ سجائے بولا۔۔ وہ پھر اس کی مسکراہٹ میں کھو گئی تھی۔۔
"لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔۔ اس آدمی کی مسکراہٹ کے شر سے اللّٰہ بچائے" اس نے فوراً ہی خود کو سرزنش کی۔۔ سامنے کھڑے تگڑے آدمی نے اسے شدید تلخ نظروں سے گھورا تھا۔۔ وہ اس کے اتنے قریب ہونے پر شدید گھبراہٹ کا شکار تھی مگر ابھی وہ اسے جھڑکنے کا خیال بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اُس مصیبت سے یہ بلا زیادہ بہتر تھی اسے وہ جھڑک کر، تپ کر سنبھال سکتی تھی مگر یونی کی اس پنوتی کو وہ ہرگز بھی نہیں جھیل سکتی تھی۔۔


"تو کون ہے؟ ہیرو!" اس نے غلاظت بھری نظروں سے ماہم کو دیکھا۔۔ ماہم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے کچا چبا جائے۔۔


"ماہم کا جگر!" اس نے تپاتی ہوئی نگاہ ماہم پر ڈالی۔۔ وہ جانتا تھا ماہم جل بھن کر آدھی ہو چکی ہے۔۔ مگر ماہم اس وقت بس یہی سوچ رہی تھی کہ مصیبت کے وقت الو کے پٹھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔۔۔ اس لفنگے نے دانت پیستے ہوئے سر جھٹکا۔۔ اگلے ہی لمحے زائم نے ماہم کو اسی طرح تھامے رخ موڑ لیا اور یونی کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔
یونی کا دروازہ عبور کرتے ہی ماہم نے اس کا ہاتھ جھٹکا اور سینے پر ہاتھ باندھے اس کے مقابل کھڑی اسے گھورنے لگی۔۔ زائم نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔۔


"کون ہو تم ماہم کے؟؟" اس نے بے حد ضبط سے گویا اسے گھیرا۔۔

"میں تمہارا بچپن کا دوست، زائم!" اس نے اتنے پُر سکون لہجے میں کہا کہ ماہم کا دل چاہا وہ اس کا منہ نوچ لے۔۔ "خونخوار میاؤں!" وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔۔

"کیا کہا؟" ماہم کے تو سر پہ لگی تلووں پہ بجھی۔۔
"اپنی زبان کا اگر صحیح استعمال نہیں آتا تو خاموش رہا کرو۔ سمجھے؟"وہ اسے بولنے کا ایک موقع بھی دیے بغیر بن موسم برسات کی مانند برس پڑی تھی۔۔ "بندر کہیں کا!" وہ شعلہ بار نگاہوں سے گھورتی ہوئی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔۔ ڈرائیور اسے لینے آیا کرتا تھا۔۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی اور گاڑی زُن سے آگے بڑھ گئی۔۔ وہ دھواں دھواں چہرا لیے اسے تن فن جاتے دیکھتا رہ گیا ۔۔ یہ لڑکی اکیلی ہی اسے پاگل کر دینے کو کافی تھی۔۔

***********

وہ آئینے کے سامنے کھڑی بال سنوار رہی تھی۔ اچانک اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔۔ وہ چونک کر مڑی تو زائم کو محبت بھری نظروں سے خود کی طرف دیکھتا ہوا پایا۔۔ وہ جل بھن کر دھواں دھواں ہو گئی۔۔
"مسٹر مصیبت!" وہ غصے میں زیرِ لب بڑبڑائی۔۔
"جانم۔۔!" زائم نے اتنی ہی محبت سے اسے دھیمی آواز میں جیسے پکارا تھا۔۔ اور وہ اس کی پکار سن چکی تھی۔۔
"میرا نام ماہم ہے!" وہ دوبارہ مڑی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی۔۔ شاید وہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے غلطی سے کہا ہے۔۔
"جانم۔۔!"اس نے اس بار ذرا اونچی آواز میں کہا۔۔ جیسے وہ اسے بتانا چاہ رہا ہو کہ وہ اسے جانم ہی پکار رہا ہے۔۔۔۔
"زائم میں اس وقت کسی بے تکے مزاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔" اس نے برش کو اس کی طرف اٹھا کے سنجیدگی سے کہا۔۔
"میں مزاق کر بھی نہیں رہا، جانم..!" وہ شاید پوری فرصت سے اسے پریشان کرنے آیا تھا۔۔
"زائم اپنی حد میں رہو!" وہ چیخی تھی۔۔
"میں نے کبھی اپنی حد عبور کی بھی نہیں ہے جانم!" اس نے بہت سکون سے سینے پر ہاتھ باندھتے اور بائیں پاؤں کو اونچا اٹھا کے موڑ کر دروازے کی پشت سے لگاتے ہوئے کہا۔۔
"بہت ہوگئی مزاق مستی۔۔ ناؤ، گیٹ آؤٹ!" اس نے کچھ مزید اونچی آواز میں کہا۔۔
"میں کہیں نہیں جا رہا۔۔ ڈئیر جانم!" کمال ڈھٹائی سے جواب دیا گیا۔۔
"اگر تم نے ایک بار اور اس لفظ کا استعمال کیا تو میں تمہارا برا حال کر دونگی۔۔" وہ تنبیہہ کرتی ہوئی کچھ قدم آگے بڑھی۔۔
"ایسے کونسا اچھا حال کیا ہے تم نے میرا۔۔۔۔ جانم!" وہ ٹھہر کر جانم پر لب دباتے ہوئے ہلکی سی ابرو اچکا کر بولا۔۔
"ٹھیک ہے پھر۔۔"ماہم نے اپنے دائیں پاؤں کو سلیپر کی قید سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔۔ پھر جھک کر سلیپر اٹھا لی۔۔ اور خونخوار بلّی کی طرح اپنے شکار کو گھورنے لگی۔۔ زائم نے اس کی یہ تمام حرکات کو الجھن بھری نظروں سے دیکھا پھر سینے پر بندھے ہاتھ بھوری جینز کی جیبوں میں جا ٹھہرے۔۔ پاؤں زمین کے برابر آ ٹکے۔۔ جیسے جیسے ماہم قدم بڑھاتی گئی وہ قدم قدم پیچھے ہوتا گیا۔۔
"کیا کہہ رہے تھے تم؟" ماہم نے استہزائیہ انداز میں سوال کیا۔۔ گویا اسے مزید ڈرانے کی کوشش کی۔۔ زائم قدم قدم پیچھے ہوتا دروازے کے کنارے پر پہنچا اور شریر مسکراہٹ کے ساتھ بولا "جانم۔!" اور دروازے کے باہر دوڑ لگا دی۔۔
"زااائئئئئم!!" وہ چیختی ہوئی سلیپر اٹھائے اس کے پیچھے دوڑی ۔
"بچاؤ۔۔۔ کوئی بچاؤ مجھ معصوم کو" زائم ہنستے ہوئے دوڑ رہا تھا۔ کبھی صوفے کے آگے تو کبھی ٹیبل کے پیچھے سے۔۔ مستقل چیختا ہوا کہ "کوئی اس خونخوار میاؤں سے مجھے بچا لے" اور وہ اس کے پیچھے "آج تم نہیں بچو گے" کہتی دوڑ رہی تھی۔۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا گیا اور وہ اس کے پیچھے ہی تھی مگر اوپر پہنچتے ہی وہ یک دم غائب ہوگیا وہ پہلی سیڑھی پر ٹھٹک کر رک گئی پھر چند قدم آگے بڑھی اور اس کے کمرے کے دروازے کے قریب آ کھڑی ہوئی جو سیڑھیاں چڑھتے ہی بائیں طرف تھا۔۔
"زائم!" اس نے متعدد بار بلند آواز سے پکارا مگر جواب ندارد۔۔
یکایک اس کی نظر بالکنی کے ساتھ بنی دیوار پر لگے قد آور آئینے پر پڑی اور اپنے عکس کو دیکھتی وہ ایک دم شرمندہ سی ہوگئی۔۔ ہاتھ پکڑی سلیپر کو اک نظر دیکھ کر زمین پر پھینکا اور فوراً پہن لی۔۔ ابھی اس نے سلیپر پہنی ہی تھی کہ کسی نے اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر زائم کے کمرے کے دروازے کی طرف کھینچا اور دروازے کے ساتھ بنی چھوٹی سے دیوار سے لگا دیا۔۔ ماہم کے بائیں ہاتھ کا پنجا اس کے مقابل کے دائیں ہاتھ کے پنجے سے ملا دیوار پر اوپر کی طرف لگا تھا اور دایاں ہاتھ اس کے بائیں ہاتھ کے پنجے سے ملا دیوار پر نیچے کی طرف لگا تھا۔۔وہ اک لمحے کے لیے سانس لینا بھول گئی تھی۔۔ اب وہ دھیرے دھیرے سانس لیتی اپنے مقابل کھڑے شخص کی چمکتی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔ ان آنکھوں میں کیا کچھ نہیں تھا ماہم کے لیے۔۔ مگر وہ پھر بھی اس سے دور رہتی تھی۔۔
"زائم!" اس نے دھیمی آواز میں کہا۔۔
"میری۔۔۔۔۔۔۔۔ جانم۔۔!"وہ اسکے چہرے پر جھکا اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے محبت سے بھرپور لہجے میں بولا۔۔ پھر اپنے ہونٹوں کو کچھ مزید اس کے رخسار کے قریب کر کے اسے اک نظر دیکھا اور پھر اپنے ہونٹ اس کے دودھیا رخسار پر رکھ دیا۔۔۔ نرم لبوں کے چھونے کا احساس ہوتے ہی اسے اس کے پورے وجود میں اک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی۔۔ چند لمحوں بعد اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا وہ اب آنکھیں کولے اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔۔
"تم بہت بدتمیز ہو!" اس نے مضبوط مگر خفا لہجے میں کہا۔۔
"جیسا بھی ہوں صرف تمہارا ہوں۔۔۔!" اس نے اک جتاتی نگاہ اس پر ڈالی اور دھیرے سے اسے اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کر دیا۔۔ اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا راہداری کی دوسری سمت کی طرف چل دیا۔۔ وہ اسے جاتا دیکھتی رہی بجز اس سوچ کے ساتھ کہ وہ اسے خود سے دور رکھنے میں کس قدر ناکامیاب رہی ہے۔۔ جبکہ یونی میں کوئی شخص اس کے قریب بیٹھنے کی بھی جراءت نہیں کرسکتا تھا اور یہ شخص اس کے گھر میں رہ کر اس کے اعصاب پر قابو کیے ہوئے تھا۔۔
************


وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر راہداری میں ٹہلنے کے ارادے سے آئی تھی۔۔ اور لاشعوری طور پر مڑ کر ایک بار زائم کے کمرے کا دروازا دیکھنے کا کام انجام دیتی ہوئی سر جھٹکتی بالکنی کی جانب بڑھنے لگی۔۔ بچپن سے ہی یہ جگہ اس کی پسندیدہ ترین تھی۔۔ وہ جب اداس ہوتی تو یہاں کھڑے ہو کر اپنی گھٹن کو ہوا کے سپرد کر دیتی۔۔ ایک عجیب سی مانوسیت تھی اس جگہ سے اسکی۔۔ آج بھی شاید اسی ارادے سے آئی تھی وہ یہاں۔۔ مگر آج اس کا دل کیوں اداس تھا۔۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔ اور وہ خود اس حقیقت کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔

**********

میں تیری نظر اُتاروں!

میں تجھے دل میں چھپا لوں!

اگر کوئی ہو طریقہ تو،

میں تجھے روح میں بسا لوں۔۔۔۔!!

وہ اسے دور سے ہی نظر آگئی تھی۔ سرخ رنگ کی پیروں کو چھوتی فراک میں۔۔ شاید یہ اسکا پسندیدہ لباس تھا۔ جب سے وہ آیا تھا،وہ کوئی چوتھی مرتبہ یہی ڈریس پہنے ہوئی تھی۔۔ اس کے کھلے بال جو پوری کمر پر جراءت سے پھیلے تھے گہرے بھورے رنگ کے تھے۔۔ کیا کوئی مستقل اتنا حسین بھی لگ سکتا ہے۔۔ محبت نام ہی کسی کے اچانک حسین لگ جانے کا ہے۔۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہا تھا تاکہ اس کے لا شعوری میں اسے جی بھر کے دیکھ لے۔۔ ورنہ تو اسے ایسے اپنی جانب دیکھتا پا کر وہ اسے نوچ کھاتی۔۔ "خونخوار میاؤں!!" وہ دھیرے سے بڑبڑا کے ہنس دیا۔۔

وہ راہداری میں چلتی آگے بڑھ رہی تھی اور وہ دیوار کی اوٹ سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اب کسی کمرے کی جانب مڑی تھی۔۔ اور زائم کے نرم ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔۔ کیونکہ وہ اسی کا کمرہ تھا۔۔ اگلے ہی لمحے زائم کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی اور چہرے پر نرمی کی جگہ سختی نے لے لی تھی۔۔ وہ جو سوچ رہا تھا کہ وہ کسی کمرے کی طرف جانے لگی ہے وہ بالکنی میں آگے کو ہو کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔ زائم کے غصے کی انتہا نہیں تھی۔۔ وہ غصے میں لال پیلا ہوتا اس کی طرف بڑے بڑے قدم اٹھاتا گیا۔۔ اور کوہنی سے پکڑ کر جھٹکے سے بالکنی سے کچھ دور لا کر اسے چھوڑا ۔۔ وہ اچانک اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی اس کے پکڑ کر کھینچنے پر وہ اک لمحے کے لیے لڑکھڑا سی گئی اور پھر اس کے چھوڑنے پر گرتے گرتے سنبھلی تھی۔۔ وہ اسے سرخ انگارا ہوتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ضبط کی وجہ سے اس کے جبڑوں کی نسیں صاف نظر آ رہی تھی۔۔ ماہم بھی اسے طیش بھری نگاہوں سے گھور رہی تھی۔۔۔ آخر یہ شخص خود کو سمجھتا کیا ہے۔۔؟ زائم اپنا غصہ برداشت کرتا خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

"میں نے تمہیں یہاں کھڑے ہونے سے منع کیا تھا نا؟" وہ ضبط کرتا ہوا دانت پر دانت جمائے بولا۔۔

"میں نے بھی تم سے کہا تھا کہ میں تمہارے حکم کی پابند نہیں ہوں!" اس کی خونخوار میاؤں نے اپنے ازلی غصیلے لہجے میں کہا۔۔

"میں کسی بھی طرح کی بحث کے موڈ میں نہیں ہوں"اس نے انگشت شہادت اٹھائی۔"آئندہ میں تمہیں یہاں کھڑا نہ دیکھوں!" وہ تنبیہی انداز میں بولا۔۔

"میں یہیں کھڑی رہوں گی!" وہ آگے بڑھ کر بالکنی کی طرف جانے لگی۔۔ تبھی زائم نے سختی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر پھر اسی جگہ کھڑا کردیا۔۔

"میں ایک بات بار بار نہیں دہراؤں گا..!" وہ دھاڑا تھا۔۔ ماہم اپنے ڈر پر قابو پاتی ہمت سے کھڑی رہی۔۔ "اپنے کمرے میں جاؤ!" اس نے حکمیہ انداز میں کہا۔۔

"نہیں جاوں گی" اس نے ڈھیٹ پن سے جواب دیا۔۔

"اپنے کمرے میں جاؤ ابھی!" وہ چند قدم آگے بڑھا اور سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زوردار آواز میں بولا۔

"میں نہیں جاوں گی۔۔۔ میں یہیں کھڑی رہوں گی۔۔! سمجھے تم؟" وہ بھی جواباً اتنی ہی تیز آواز میں غرائی۔۔ وہ غصے میں لال ہوتا چند قدم آگے بڑھا۔۔ وہ نڈر سی گردن اکڑا کے کھڑی رہی۔۔

"اپنے کمرے میں جاؤ" آواز دھیمی مگر لہجہ سخت تھا..وہ چند قدم پیچھے ہوئی پھر اک جھٹکے سے بالکنی کی طرف بڑھی۔۔ ڈھٹائی کی بھی حد تھی۔۔ زائم کا ضبط جیسے جواب دے گیا تھا۔۔ اس نے جھٹ اسے بائیں ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کھینچا اور اگلے ہی لمحے اس کا بھاری مردانہ ہاتھ اس کے نرم گالوں کو سرخ کرتا اک بہت تیز آواز پیدا کر چکا تھا۔۔ ماہم اس کے اس شدید ردعمل پر سٹپٹا کر رہ گئی۔۔ اس کی گہری نیلی آنکھوں میں واضح نمی پھیل گئی۔۔ زائم نے جب اسکی نم آنکھوں کو دیکھا تو جیسے اسے ہوش آیا تھا۔۔ وہ اک دم ہی دو قدم پیچھے ہٹا ملال کی مورت بنا ہوا تھا ۔ وہ اپنے سرخ رخسار پر ہاتھ رکھی سیڑھیوں پر دوڑ گئی۔۔ زائم کی بھوری آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔۔ اس کا چہرہ لمحوں میں تر ہو گیا تھا۔۔
**************

دن ڈھل گیا رات ہو گئی۔۔ مگر زائم نے دوبارہ ماہم کو نہیں دیکھا۔۔ وہ سارا دن کمرے میں قید رہی۔۔ کھانے کے بلاوے پر اس نے کان نہیں دھرے اور دروازا بند رہا۔۔ وہ مارے ندامت کے اس کے سامنے جانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔۔ اور وہ جاتا تو پوچھتی کہ ایسا بھی کیا ہے کہ ماہم کے صرف اس بالکنی میں نہ کھڑا ہونے کے لیے، اس نے ماہم پر ہاتھ اٹھا دیا۔۔ وہ کتنے راز اپنے سینے میں لیے گھوم رہا تھا وہ اس بات سے سرے سے ہی بے خبر تھی۔۔ گھر کے کسی بھی فرد نے اسے نہیں بتایا تھا۔۔ اور اسے خود کچھ بھی یاد نہیں تھا۔۔

زائم اور ماہم بچپن کے دوست تھے۔۔ اور ایک دوسرے سے بہت مانوس تھے۔۔ ان کا بچپن ساتھ گزرا تھا۔ پھر زائم کے بابا سلطان محمد، جو ماہم کے بابا فرید عالم کے قریبی دوست اور بچپن کے ساتھی تھے، زائم کو لے کر لاہور چلے گئے۔۔ وہ سب اسلام آباد میں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔۔ کیونکہ عالم صاحب کی والدہ مرحوم نے سلطان صاحب کو گود لے رکھا تھا۔۔ زائم لاہور گیا اور وہاں کی بڑی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔۔ اور پھر نہ جانے کس آفس میں نوکری شروع کردی۔۔ گھر کے بڑے اس بات سے بخوبی واقف تھے مگر ماہم کو کچھ خاص علم نہیں تھا۔۔ ماہم ، زائم سے 4 سال چھوٹی تھی۔ اسی لیے جب وہ نوکری شروع کر رہا تھا تب وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے رہی تھی۔۔ ماہم کے چار سال یونیورسٹی کے پورے ہوئے تو اس کے والد نے اس کی شادی طے کردی۔۔ وہ اپنی شادی سے بہت خوش تھی مگر ایک دن کچھ ایسا حادثہ ہوا کہ وہ اپنی زندگی کی ہر اچھی بری یاد بھول گئی ۔۔ اسے یاد تھا تو صرف یہ کہ اس کے والد کون ہیں اور اسکی والدہ (نفیسہ بیگم) کون ہیں۔۔ سوا اس کے اسے کچھ یاد نہیں تھا یہاں تک کے اس کا شوہر بھی۔۔ اور اس کے بچپن کا دوست بھی۔۔۔

***********

وہ اب اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔۔ اسے بار بار ماہم کی بھیگی ہوئی آنکھیں اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔۔ اور اب وہ رات کے ایک بجے اپنی الجھن سے تھک کر اسکے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔ اس نے اپنے مخصوص انداز میں دروازے پر دستک دی۔۔ وہ اس وقت سیاہ ٹراؤزر اور بغیر آستین والی سیاہ شرٹ میں ملبوس تھا ۔ بغیر آستینوں کی شرٹ سے اس کے سفید کسرتی بازو صاف نظر آ رہے تھے۔۔ بھوری آنکھوں میں سرخی پھیلی تھی۔۔ اور ملائی سا سفید چہرہ ندامت کی تصویر پیش کر رہا تھا۔۔۔ اس نے مزید دو مرتبہ دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔۔ اب زائم کو تشویش ہو رہی تھی۔۔ اس نے دروازے کا ناب دھیرے سے گھمایا تو وہ بنا آواز پیدا کیے کھلتا چلا گیا۔۔ دروازا کھلتے ہی جو منظر زائم کا انتظار کر رہا تھا، وہ اسے صدمے سے مار دینے کے لیے کافی تھا۔۔ کمرے کے عین وسط میں وہ بستر کے قریب اوندھے منہ گری ہوئی تھی۔۔ اردگرد ہر چیز اسکی جگہ پر تھی۔۔ سوائے اس کے موبائل کے۔۔ وہ بھی اس کے قریب بند پڑا تھا۔۔ زائم دیوانہ وار اس کی طرف دوڑتا ہوا اسکا نام زور زور سے پکارنے لگا۔۔
اس نے بنا کچھ سوچے ماہم کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔۔
"آج نہیں۔۔۔ ماہم آج نہیں۔۔۔" وہ مسلسل کہہ رہا تھا۔۔ اس کے ذہن کے پردے پر اک یاد مسلسل گھوم رہی تھی۔۔ وہ بچوں کی طرح سے رو رہا تھا۔۔ گھر میں سب سو رہے تھے۔۔ وہ اسے سیدھا اوپر اپنے کمرے میں لے آیا۔۔ "زائم۔۔۔" وہ گنودگی میں ہلکی آواز میں اسے پکار رہی تھی۔۔ زائم نے اسے کمرے میں لا کر اپنے بیڈ پر لٹا دیا۔۔ وہ اس کا نام پکار رہی تھی ۔ "زائم۔۔ " اس کی بند آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے۔۔ وہ اسے بیڈ پر لٹا کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔۔ اور اپنے ہاتھوں سے اس کے سرخ گال کو سہلانے لگا ۔۔۔ ملال زدہ سی اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر ماہم کے چہرے پر گِر رہے تھے۔۔ ماہم نے مندی مندی سی آنکھیں کھولیں اور بس اس کو روتے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے اک نظر دیکھا۔۔ اور پھر نیند سے بوجھل آنکھیں بند کر لیں۔۔

"مجھے معاف کردو۔۔! پلیز۔۔۔ ماہم ۔۔۔۔ میری جان پلیییییز۔۔۔!! میں بہت ڈر گیا تھا۔۔۔ مجھے اس جگہ سے ڈر لگتا ہے۔۔۔ میں تمہیں اک بار اسی جگہ سے کھو دینے کے خوف سے گزرا ہوں۔۔۔ بس وہ جگہ مجھے تمہارے لیے غیر محفوظ لگتی ہے۔۔۔ جان! آئی ایم سوری۔۔ " وہ اب آواز سے رو رہا تھا۔۔ کچھ لمحے آنسوؤں کے درمیان گزرے۔۔ پھر ماہم کا بے ہوش سا وجود کچھ حرکت میں آیا۔۔ ماہم کا جو ہاتھ زائم کے دونوں ہتھوں کے درمیان تھا اس نے اسے ہلکی سی جنبش دی۔۔ زائم اس پر اپنا ماتھا ٹکائے ہوئے تھا۔۔ حرکت کے احساس پر اس نے گردن اٹھائی۔۔ ماہم ہلکی سی آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ پھر کچھ ہی لمحوں میں اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں ۔ اس کا بخار بہت بڑھ گیا تھا۔۔ زائم نے خود کو سنبھالا اور ایک چھوٹے تولیے کے ساتھ ٹھنڈے پانی کا پیالہ لے آیا۔۔ وہ رات بھر اس کی خدمت کرتا رہا۔۔۔ اور ماہم ہر تھوڑی دیر میں نیم گنودگی میں آنکھیں کھول کر اسے اپنے پاس بیٹھا دیکھتی، کبھی وہ اسے پٹیاں کر رہا ہوتا تو کبھی اس کے ہاتھ پانی میں ڈالے بیٹھا ہوتا ، کبھی پاؤں کے پنجوں کو پانی سے دھو رہا ہوتا ، کبھی اس کے رخسار پر مرہم لگا رہا ہوتا تو کبھی بیٹھا اسے تَک رہا ہوتا۔۔ ساری رات اسی میں گزر گئی۔۔ مگر زائم نے پلکیں تک نہیں جھپکائیں تھی۔۔
************

صبح سورج کی تیز روشنی سے اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔۔ اس نے کمرے میں نظریں دوڑائیں مگر وہاں زائم نہیں تھا۔۔ اس کے قریب بیڈ پر نفیسہ بیگم اور راحلہ بیگم بیٹھی تھیں۔۔ راحلہ بیگم نے اس کا بایاں ہاتھ تھام رکھا تھا جبکہ نفیسہ بیگم اس کے سرہانے بیٹھیں اس کے بال سہلا رہی تھیں۔۔ ملازمہ کھانا لائی تھی۔۔ اسے فریش کروا کر دونوں مائیں ایک ایک نوالہ بناتیں اسے کھانا کھلا رہی تھیں۔۔ اس کی آنکھوں میں بار بار پانی بھر رہا تھا جسے کبھی راحلہ بیگم صاف کرتیں تو کبھی نفیسہ بیگم۔۔۔ وہ اس ننھی سی جان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھیں۔۔ وہ اس کے جاگنے سے پہلے خوب رو لی تھیں۔۔ یکایک دروازے پر دستک ہوئی۔۔ تو تینوں نے ایک ساتھ دروازے کی سمت دیکھا۔۔ وہاں سلطان صاحب اور فرید صاحب زائم کے ہمراہ کھڑے تھے۔۔ وہ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے تھے۔۔ زائم کی شرمندہ سی مسکراہٹ وہ سمجھ گئی تھی۔۔ وہ سب اندر آئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پیار کرنے لگے۔۔ زائم کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔۔ وہ دونوں محبت سے اس کے گلے لگ کر الگ ہوئے اور ہلکی پھلکی بات چیت کرنے لگے۔۔ زائم بس خاموش کھڑا تھا۔۔ کچھ لمحے گزرے تو سب ان دونوں کو اکیلا چھوڑے کمرے سے باہر نکل گئے۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا رہے تھے۔۔ چند لمحوں بعد زائم نے ہمت کر کے قدم اٹھائے۔۔ اور اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔ وہ بس نیچے دیکھ رہا تھا۔۔ شرمندگی سی شرمندگی تھی۔۔

"آئی ایم۔م۔م ۔۔۔۔ سوری۔۔" الفاظ اس کے حلق میں پھنس رہے تھے۔۔ ماہم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔ بس دوسری جانب کھڑکی کے باہر نظر آتی کیاریوں کو دیکھتی رہی۔۔ "میں جانتا ہوں میں تمہارا گنہگار ہوں۔۔"وہ دھیمے اور تھکن زدہ سے لہجے میں بولا۔۔ وہ ہلی تک نہیں۔۔ "ماہم۔۔!"اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پکارا۔۔ اس نے دھیرے سے رخ موڑا۔ مگر اس کی طرف نگاہیں نہیں اٹھائیں۔۔ "میں معافی کے لائق نہیں ہوں۔۔۔"وہ دھیرے سے بولا۔۔ "مجھے معاف نہیں کر سکتی تو ۔۔۔۔۔" الفاظ جیسے ختم ہو گئے تھے۔۔ اس کی آنکھیں بہنا شروع ہو گئی تھیں۔۔ "تو۔۔۔ میں چلا جاتا ہوں۔۔۔" زائم نے رخ پھیرا اور اک اذیت ناک آہ ہوا کے سپرد کی۔۔ دونوں ہاتھ کے پنجوں پر وزن دیتا وہ اٹھنے لگا تھا جب وہ بولی۔۔
"ایسے تو ۔۔ بڑے دعوے کرتے ہو۔۔۔ کہ دوست ہو۔۔۔ وہ بھی بچپن کے۔۔۔" اس نے اس کی طرف رخ پھیرا۔۔ "اور اب کہہ رہے ہو کہ چلا جاتا ہوں۔۔۔ جب میں کہہ رہی تھی، تب کیوں نہیں گئے؟ اب، اپنی مرضی سے جا رہے ہو۔۔" وہ تیز نظروں سے اسے گھورتی ہوئی بولی چلی گئی ۔ زائم میں اب بھی اس سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔۔ "بولو! کل تک تو کہہ رہے تھے۔۔ کہ کچھ بھی ہو جائے میری جان نہیں چھوڑو گے۔۔ تو پھر اب۔۔" وہ سخت لہجے میں اور مضبوط آواز سے بولی۔۔
"میں نے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے۔۔"اس سے آگے وہ بول نہ سکا۔۔
"وہ تو پہلے بھی پہنچاتے تھے۔۔۔۔ میں جو کہنے کا منع کرتی ہمیشہ وہی بات کہتے تھے۔۔"وہ آج سارے حساب کھول بیٹھی تھی۔۔
"اس کے پیچھے ایک وجہ تھی۔۔"وہ دھیرے سے بولا۔۔
"کیا؟" وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔۔
"میں چلتا ہوں۔۔" وہ اک دم اٹھ کھڑا ہوا۔۔ ماہم نے پُھرتی سے اس کا ہا تھ پکڑا اور اسے روکنے کی کوشش کی۔۔


"مجھے بتائے بغیر نہیں جاؤ گے کہ ایسا کیا ہے جو اس بالکنی کے پاس ہوا تھا۔۔"اس نے سختی سے کہا۔۔


"میں تمہیں۔۔" زائم کچھ کہنے لگا تھا۔۔ "مجھے بتائے بغیر نہیں جاؤ گے۔۔" اس نے بلند آواز سے اس کی بات کاٹی۔۔ زائم نے گردن موڑی اور اسے دیکھا جو آنکھوں میں انگارے لیے دیکھ رہی تھی۔۔
"ضد مت کیا کرو۔۔!" اس نے دھیمے لہجے میں تنبیہہ کی تھی۔۔


"اگر تم ۔۔۔ مجھے۔۔۔ سچ بتائے بغیر کہیں گئے ۔۔ تو یاد رکھنا میں تمہارے نام سے بھی نفرت کرنے لگونگی۔۔" اس نے طیش میں کہا اور جھٹکے سے اس کا ہاتھ چوڑ دیا۔۔ زائم نے دانت پیس کر اپنا غصہ ضبط کیا۔۔ اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔


*********.
اگلے دن زائم نے ماہم سے کہا کہ وہ گاڑی نکال رہا ہے چلو ساتھ گھر چلتے ہیں۔۔ ابھی تمہاری طبیعت ایسی اچھی نہیں ہے کہ ٹہلتی ہوئی اکیلی گھر جاؤ۔۔ جس کے جواب میں ماہم نے کہا تھا۔۔ کہ میں ٹھیک ہوں اور اکیلی نہیں ہوں اپنی دوستوں کے ساتھ ہوں۔۔ اور ویسے بھی مجھے تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔۔ بلکہ تم سے حفاظت کی ضرورت ہے۔۔ وہ تن فن کرتی تیکھے نقوش لیے آگے بڑھ گئی تھی۔۔ کچھ دیر بعد وہ یونیورسٹی میں اپنی دوستوں کے ہمراہ گھر واپسی کسی کے لیے دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی جب اسی بدتمیز لڑکے نے ان کا راستہ کاٹا۔۔ وہ سب اس وقت یونی کی عمارت کے نچلے حصے میں موجود تھیں۔۔ وہ لڑکا ان سب میں صرف ماہم کو گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ سب اس سے ہٹ کر آگے بڑھنے لگیں جب اس نے ماہم کی کلائی پکڑی اور اسے دیوار سے لگا دیا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اس پر جھکتا نہ جانے کدھر سے زائم صاحب نازل ہوئے اور اسے کندھے سے پکڑ کر ماہم سے دور ہٹایا۔۔ ماہم فوراً ہی اپنی دوستوں کی طرف بڑھ گئی۔۔ زائم نے اس بد تمیز کو گردن سے پکڑا اور پوری قوت سے اسے اونچا اٹھایا۔۔ پیچھے کھڑی لڑکیوں اور کتنے ہی لڑکوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے ۔ ماہم آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔۔ کہ یہ زائم ہی ہے یا کوئی خلائی مخلوق۔۔ زائم نے دھپ سے اسے زمین بوس کیا اور اس پر جھکا مکّے اور لاتیں برسانےلگا۔۔ وہ لڑکا خونم خون ہو گیا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ مر جاتا استادوں کا اک گولا جمع ہوا اور انہوں نے انہیں الگ کیا۔۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ کسی نے بھی زائم کو کچھ نہیں کہا تھا۔۔ ماہم کو حیرت ہوئی تھی مگر پھر وہ سب باہر نکلنے لگے ۔۔۔ زائم نے اک سرسری نگاہ اس پر ڈالی اور پھر یونی سے باہر نکل گیا ۔۔ ماہم کچھ شرمندہ سی دروازے سے باہر ائی تھی۔۔ اور اسے جو لگ رہا تھا کہ زائم غصے میں اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے وہ بلکل سامنے بائیک پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا ۔ وہ کچھ کھسیانی سی اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔۔ دوستوں کو وہ یونی کے اندر ہی خدا حافظ کہہ چکی تھی۔۔ وہ گھر پہنچی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ کچھ دیر بعد جب وہ کمرے سے باہر نکل کر اوپر سیڑھیاں چڑھنے لگی تو وہ اسے بالکنی سے کچھ دور کھڑا نظر آیا۔۔ اپنی سوچوں میں غلطاں وہ اپنے ارد گرد سے فراموش تھا۔۔ جب وہ اس کے قریب سے خاموشی سے گزرنے لگی۔۔ ماہم کی طرف اس کی پشت تھی۔۔ وہ قدم بڑھاتی راہداری میں آگے بڑھی ہی تھی کہ زائم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پچھلی بار کی طرح دیوار سے لگا دیا۔۔ ہر چیز بلکل ویسی ہی لگ رہی تھی۔۔ نہ جانے کیوں اسے عجیب سا لگا۔۔ مگر اس بار وہ دل میں ارادہ کر چکی تھی کہ وہ زائم کو کوئی غلط حرکت نہیں کرنے دے گی۔۔ زائم پہلے کی طرح اس پر جھکا مگر ماہم نے اسے لمحے کی مہلت دیے بغیر ہی اک زوردار دھکا دے کر اس سے الگ ہوئی.. وہ اس حملے کہ لیے ہرگز تیار نہیں تھا۔۔ لڑکھڑا کر زمین پر گر گیا ۔۔۔


"بے شرم انسان۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں زانی نہیں ہوں۔۔۔۔" وہ غصے کی انتہا کی وجہ سے تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔۔ اس کی آواز بلند تھی۔۔ گھر میں اس وقت سوائے ان دونوں کے ملازمہ تھی جو کچن میں مصروف تھی ۔۔۔زائم اس کے لفظوں پر گنگ رہ گیا۔۔۔ وہ کیا کہہ رہی تھی۔۔ کیا وہ ہوش میں تھی؟؟ "میری زندگی میں ہزاروں گناہ ہونگے زائم سلطان محمد! مگر میں۔۔۔۔۔ زانی۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ ہووں۔۔۔۔" وہ آخری جملہ چبا چبا کر بولتی وہ غصے سے غرّائی تھی۔۔
"ماہم!" زائم نے شدید بلند آواز میں اسے گویا جھڑکا تھا۔۔۔


********     

"میری زندگی میں ہزاروں گناہ ہونگے زائم سلطان محمد! مگر میں۔۔۔۔۔ زانی۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ ہووں۔۔۔۔" وہ آخری جملہ چبا چبا کر بولتی غصے سے غرّائی تھی۔۔
"ماہم!" زید نے شدید بلند آواز میں اسے گویا جھڑکا تھا۔۔۔


"چلّاؤ مت۔۔۔۔!" وہ بھی جواباً غرّائی تھی۔۔۔ "کیا سمجھتے ہو تم خود کو۔۔۔ ہاں؟ سورہ نور نہیں پڑھی کیا تم نے؟ کیا نہیں جانتے اللّٰہ کا حکم؟ کیوں چاہتے ہو کہ سورہ نور کی مار پڑے مجھے؟؟؟ کیوووووں؟؟؟ آخر کیوں نہیں ڈرتے تم اللّٰہ سے۔ ۔؟ ہاااااں؟؟"وہ روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔۔ آج اس کا صبر جواب دے گیا تھا۔۔۔ زائم گنگ تھا۔۔ اس میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔۔ کیونکہ اس کے سارے سوالات کا بس ایک ہی جواب تھا جو وہ اسے نہیں بتا سکتا تھا۔۔ کسی صورت بھی نہیں۔۔۔


"بولو۔۔! نہیں جانتے کہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں سے اسے پسِ پشت ڈال دینے کا جواب مانگے گا۔۔ قبر تنگ کردی جائے گی۔۔ وہ ہمارے خلاف گواہی دیگا ۔ بولو ۔۔ جواب دو۔۔" وہ مسلسل چیخ رہی تھی۔۔ زائم چند قدم آگے بڑھا اور بس اتنا ہی کہہ سکا۔۔ "زندگی میں پہلی بار مجھے تم سے نفرت محسوس ہوئی ہے۔۔" آگے وہ کچھ کہہ نہیں پایا کیونکہ جتنا وہ کہہ چکا تھا وہ اس کے لیے زباں پر بھاری پتھر کی طرح تھا ۔ کہتے ہی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیڑھیاں اتر گیا۔۔۔


***********.
وہ اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔ آج اس نے ڈاکٹر کو گھر بلایا تھا ۔۔وہ ماہم کو لے کر بہت پریشان تھا۔۔ وہ اب اس سب کا حل چاہتا تھا۔۔


"میں اکیلی چلی جاونگی۔۔"وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا جب ڈائننگ ہال کے قریب ماہم کو کہتے ہوئے دیکھا۔۔ وہ دونوں ماؤں کے درمیان کھڑی تھی اور اس کے چہرے سے نقاہت واضح نظر آ رہی تھی۔۔ وہ بیمار تھی اور شاید پریشان بھی۔۔ کل کے واقعے کے بعد زائم نے ماہم سے ایک بار بھی بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی ان دونوں کا سامنا ہوا۔۔ زائم سیڑھیاں اتر کر سیدھا باہر جاتی راہداری کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ تبھی پیچھے سے راحلہ بیگم نے زائم کو پکارا۔۔ وہ مڑا اور نظریں سیدھا اپنی ماں کی طرف رکھیں۔۔ چہرے پر سخت نقوش تھے اور آنکھیں سرخ انگارا ہو رہی تھیں۔۔


"بیٹا یونیورسٹی جا رہے ہو؟" راحلہ بیگم نے خوشگوار لہجے میں پوچھا ۔
"جی۔۔" یک حرفی جواب۔۔ لہجہ سنجیدہ۔۔
"تو بیٹا ماہم کو ساتھ لے جاؤ نا۔۔ آج کل اس کی طبیعت بہت خراب رہتی ہے۔۔ بار بار بے ہوش ہو جاتی ہے ۔۔" انہوں نے ماہم کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔ ماہم کسی صورت جانا نہیں چاہتی تھی۔۔ نہ جانے کیوں وہ کل کے بعد سے بہت شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔۔ اسے بہت دکھ ہو رہا تھا۔۔ رہ رہ کر اس کی سماعتوں میں زائم کا کہا آخری جملہ گونجتا تھا۔۔۔ وہ بہت الجھن کا شکار تھی۔۔۔ اس کا دماغ کہتا تھا کہ اس نے جو کہا سب صحیح کہا ۔۔ اسے یہی سب کہنا چاہئیے تھا۔۔ اور اس کا دل۔۔۔ اس کا دل جو کہتا تھا وہ اسے الجھن میں ڈال رہا رہا تھا۔۔ اسے پھر سے رونا آ رہا تھا۔۔ کیا واقعی زائم اس سے نفرت کرنے لگا ہے؟؟ وہ روہانسی ہو گئی تھی۔۔
"ڈرائیور سے کہہ دیتا ہوں میں، چھوڑ دیگا حفاظت سے وہ۔۔" اس نے اک نظر بھی ماہم کو نہیں دیکھا تھا۔۔ اور دل تھا کہ اسی کی طرف کھینچا جا رہا تھا۔۔ مگر وہ اب خود پر قابو پانا چاہتا تھا۔۔
"اگر ڈرائیور کے ساتھ بھیجنا ہوتا تو تمہیں کیوں کہتی۔۔" انہیں اور نفیسہ بیگم کو زائم کا جواب عجیب لگا تھا۔۔ وہ یہ امید نہیں کر رہی تھیں زائم سے۔۔
"تو عنزہ کو فون کردیں وہ لے جائے گی آ کر۔۔ یہیں سے پڑتا ہے اس کا راستہ۔۔" اس نے پھر ٹالنے کے لیے ماہم کی قریبی اور چہیتی دوست عنزہ کا کہا۔۔ اس بار تو راحلہ بیگم کی حیرت کی انتہا نہیں تھی۔۔
"زائم! کیا ہو گیا ہے؟ کیا پھر سے لڑے ہو تم دونوں؟" انہیں جیسے دکھ کے ساتھ اک بڑا جھٹکا لگا تھا زائم کے انداز اور اس کے جوابات سے۔۔
"آا۔۔ نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے ۔" زائم اک دم بوکھلا گیا۔۔ ماہم کی نگاہیں زمین پر ٹِکی تھیں۔۔ "میں دراصل ریش ڈرائیونگ کرتا ہوں۔۔ اس لیے کہہ رہا تھا کہ یہ پریشان نہ ہو جائے۔۔" ماہم کو اصل جھٹکا اب لگا تھا۔۔ یہ شاید اسکی یادداشت کے مطابق پہلی بار تھا جب زائم نے ماہم کا نام نہیں لیا، نہ کسی پیارے نام سے بلایا بلکہ اسے "یہ" کہا۔۔ ماہم سسکیاں لے کر رونا چاہتی تھی۔۔ کیوں؟ یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔۔۔ اس کا رب گواہ تھا۔۔ اسے زائم کے ساتھ ایک اجنبی سا سکون ملتا تھا۔۔ انجانہ سا۔۔ ایسا کہ جسے وہ کوئی نام نہیں دے پاتی تھی۔۔۔ اور اس کے لیے وہ خود کو گنہگار بھی سمجھتی تھی۔۔ مگر اسے علم کہاں تھا کہ وہ کس سچ سے لاعلم تھی۔۔ اس کی ہر الجھن، ہر سوال کا بس ایک ہی جواب تھا۔۔ جو کوئی بھی اسے نہیں دینا چاہتا تھا۔۔
"تو کیا ہوا؟ لے کر جاؤ اسے۔۔ گاڑی آہستہ چلا لینا۔۔" ان کے چہرے کی جوت ماند پڑتی صاف نظر آئی تھی۔۔ وہیں نفیسہ بیگم کو بھی کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔۔۔
"جیسا آپ کہیں!"وہ کہہ کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔۔ راحلہ بیگم اور نفیسہ بیگم نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر ماہم کو جو فرش پر نظریں جمائے تھی۔۔۔
************


وہ دونوں ماہم کو گاڑی تک چھوڑنے آئی تھیں۔۔ اور انکے بیٹھنے سے پہلے ہی اندر چلی گئیں تھیں۔۔ ماہم آگے کی سیٹ کا دروازا کھولنے لگی تھی کہ ڈرائیور آگے بڑھا اور پچھلی سیٹ کا دروازا کھول دیا۔۔ وہ چونکی پھر پیچھے بیٹھ گئی۔۔ اس کے بیٹھتے ہی زائم کہیں سے نمودار ہوا اور آگے کی سیٹ کا دروازا کھول کر بیٹھ گیا۔۔ ماہم حیرت سے دیکھنے لگی۔۔ چند لمحے وہ زائم کے بائیں بازو کو دیکھتی رہی جو مسلسل گاڑی کے سسٹم پر کچھ کام کرتے ہل رہا تھا پھر جیسے اسکے ذہن میں کچھ جھلکیاں دکھائی دیں اس نے سر کے شدید درد کرنے کی وجہ سے آنکھیں میچ لیں۔۔ 'اس کے ذہن کے پردے پر دھندلے سے کچھ چہرے بن رہے تھے۔۔ وہ کسی گاڑی میں بیٹھ رہی تھی۔۔ کسی نے اسے پکارا تو وہ چونکی تھی۔۔ وہ ایکدم کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔۔ اس نے سرخ رنگ کی فراک پہن رکھی تھی۔۔ کوئی اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔ اس شخص کا چہرہ دھندلا تھا۔۔ اس نے جیکٹ کے کولر جھٹکے اور ایک آواز گونجی تھی۔۔' ماہم نے اپنے ماتھے کے دونوں طرف ہاتھ رکھ لیے آنکھیں مستقل میچے ہوئے تھی۔۔ 'میں تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں آگے بیٹھو!' کسی نے اس سے کہا وہ اک دم ہنس کر آگے کا دروازا کھولنے لگی' ماہم پسینے میں شرابور تھی۔۔ اسنے اک دم آنکھیں کھول دیں ۔۔ تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔۔ اس نے دھیرے نظریں اٹھا کر دیکھا زائم انگنیشن میں چابی گھما رہا تھا۔۔ وہ ایکسیلیٹر پر زور دینے ہی لگا تھا کہ کسی احساس کے تحت اس نے گردن موڑی۔۔ شاید اس نے بیک ویو مرر میں دیکھا تھا۔۔
"کیا ہوا؟" اس نے محتاط انداز میں پوچھا۔۔ وہ پسینے میں تر تھی اور گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ۔۔۔"پانی دوں؟" اس نے کہتے ساتھ ہی پانی کی بوتل اٹھائی اور کھول کر اس کی طرف بڑھائی۔۔۔ سردمہری اس کے انداز میں عیاں تھی۔۔۔ ماہم نے ہاتھ بڑھایا اور اس کے ہاتھ سے پانی لے کر لبوں سے لگایا۔۔۔ پھر بوتل منہ سے ہٹا کر اس کی طرف واپس بڑھا دی۔۔
"طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟؟ اس نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔ لہجہ بے لچک تھا۔۔
"نہیں!" وہ ہاں کہنا چاہتی تھی، جھوٹ بولنا چاہتی تھی۔۔ مگر نہیں بول سکی۔۔۔
"چلو گھر کے اندر چلتے ہیں۔۔" اس نے کہا اور گاڑی سے اترنے لگا۔۔۔ وہ بھی ساتھ ہی نیچے اتری۔۔ زائم آگے بڑھ کر ملازمہ کو بلانے لگا تھا کہ وہ بولی۔۔ "میں یہیں باغ میں بیٹھنا چاہتی ہوں۔۔" اس نے دور تک پھیلے سبزے کی طرف اشارہ کیا ۔۔ زائم نے سر اثبات میں ہلایا اور اس کی طرف بڑھا ۔۔
"خود چل سکتی ہو؟" زائم نے اس کے قریب پہنچ کر دھیرے سے پوچھا۔۔ ماہم نے زائم کو دیکھا اور پھر ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرنے لگی۔۔ اس کا ماتھا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔۔ زائم نے ہاتھ آگے بڑھایا جسے ماہم نے تھام لیا۔۔ نہ جانے کیوں؟ وہ اس کی قربت میں سکون محسوس کرتی تھی۔۔ جس پر اسکا دل اسے کبھی ملامت بھی نہیں کرتا تھا...


وہ دونوں سنگی بینچ پر بیٹھ گئے اور ماہم نے سر بینچ کی پشت سے ٹکا دیا۔۔ چند لمحے سکون کے سانس کے گزرے تھے کہ اچانک ماہم کا موبائل بجنے لگا۔۔زائم نے چونک کر ماہم کی طرف دیکھا جو کوفت زدہ سی موبائل کی جگ مگ کرتی اسکرین پر آتے نمبر کو دیکھ رہی تھی۔۔ کالر آئی ڈی ایپ موبائل میں موجود ہونے کی وجہ سے نام بھی لکھا آرہا تھا۔۔ "بکّل بھائی۔" جہاں ماہم کے گلے میں کڑواہٹ سی اتری تھی وہیں زائم کی آنکھوں میں سرخی اتر آئی تھی۔۔ چند لمحے وہ بیزارئیت سے برداشت کرتی رہی پھر فیصلہ کر کے فون اٹھا ہی لیا۔۔
"ہیلو" اس نے سخت لہجے میں کہا۔
"ہئےےےے۔۔ میری جان۔۔۔۔!" غلاظت میں لتھڑا لہجہ اور کراہت سے بھرپور آواز۔۔
"اپنی حدود بھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ایک لفظ نے تمہارے عقیدے کو جتنی بری طرح خراب کیا ہے نا، اس سے زیادہ برا حشر تمہارا "یوم الدین" کو ہوگا۔۔ سمجھے تم؟" بلند آواز میں جھڑکتی وہ بہت غصے میں لگ رہی تھی۔۔ زائم نے فوراً اس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹا اور فون اسپیکر پر کر دیا۔۔
"لیکچر سننے کے لیے فون نہیں کیا میں نے جان! اس دن جو سرخ فراک پہن کر آئی تھی نا یونی اور ساتھ وہ کھلے ریشمی بال۔۔۔ خدا کی قسم! دل کر رہا تھا لپٹ جاؤں۔۔" زائم کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اسے جان سے مار دے۔۔۔ اور ماہم کی آنکھوں میں بھی اب سرخی دوڑ رہی تھی ۔ زائم کے ذہن میں جیسے کچھ کلک ہوا تھا۔۔ اس نے فوراً فون کاٹ دیا اور کالر آئی ڈی سے نمبر بلاک لسٹ میں ڈال دیا۔۔ ماہم کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر رخ پھیر لیا..


***************


وہ اپنے کمرے میں کھڑی ہاتھوں کو نرم کرنے کے لیے لوشن مَل رہی تھی جب دروازے پر ایل مخصوص انداز سے دستک ہوئی. انداز بتانے کو کافی تھا کہ کون ہے۔۔۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہی۔۔ دروازا دھیرے سے کھلا تھا اور امید کے مطابق وہ اندر آگیا تھا۔۔ کچھ لمحے وہ اس کی پشت کو دیکھتا رہا۔۔ پھر گلا کھنکار کر گفتگو کا آغاز کرنے لگا۔۔
"سنو!" دھیما لہجہ، آنکھوں میں نرمی۔۔
"ہممممم!" مصروف انداز، ترچھی نظریں اس پر جمائے۔۔۔
"یہ لایا تھا میں تمہارے لیے۔۔۔ پسند آئے تو استعمال ضرور کرنا۔۔"وہ شاید اس کے مصروف سے انداز پر بددل ہوگیا تھا۔۔ روانی سے کہہ کر ہاتھ میں پکڑا پیکٹ بستر پر رکھ کر کمرے سے نکل گیا۔۔ اس کے باہر جاتے ہی ماہم جھٹ مڑی اور پیکٹ کھولا۔۔ ماہم حیرت کے سمندر میں غوطے لگا رہی تھی۔۔ زائم نے اسے تحفے میں اسکارف دیے تھے۔۔ اس کی حیرت کی انتہا نہیں تھی۔۔ تین اسکارف طے شدہ تھے۔۔ ایک ہلکے آسمانی رنگ کا، ایک سرمئی رنگ کا اور ایک بے رنگ سفید تھا۔۔۔ وہ مبہوت تھی اس کے اس عمل پر۔۔ اس نے ایک گیری سانس ہوا کے سپرد کی۔۔۔

                      ***********

وہ رات کے کھانے کے بعد باہر لان میں آگئی تھی۔۔ زائم پہلے سے ہی وہاں موجود تھا۔۔ جب ماہم پہنچی تو آہٹ پر اس نے سر اٹھایا۔۔ ایک لمحے کے لیے دونوں کی نظریں ملیں اور پھر زائم نے رخ پھیر لیا۔۔ ماہم کو لگا کہ اس کے دل میں کہیں ٹِیس اٹھی تھی۔۔ وہ سر جھٹک کر زائم سے کچھ فاصلے پر بینچ پر بیٹھ گئی۔۔ کئیں لمحے خاموشی کی نظر ہوگئے۔۔ آج ماہم نے نیوی بلیو رنگ کا سادہ جوڑا پہن رکھا تھا اور ساتھ اسی کا دیا ہوا سرمئی رنگ کا اسکارف سر پر سلیقے سے لے رکھا تھا۔۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اسے تحفہ پسند آیا تھا۔۔۔۔ یہ اتفاق تھا کہ زائم نے جو ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اس کا رنگ بھی نیوی بلیو ہی تھا۔۔ وہ دونوں ساتھ بیٹھے بہت پیارے لگ رہے تھے۔۔ اردگرد پھیلے سبزے اور کیاریوں میں لگے خوش رنگ اور خوشبو سے معطر پھول ان پر نثار ہو ہو کر ہوا کے سنگ لہک رہے تھے۔۔۔ پھر خاموشی ٹوٹی۔۔



"ایک بات کہوں؟ کبھی کبھی تم ایسے لگتے ہو کہ تم سے اچھا کوئی نہیں اور کبھی کبھی ایسے ہو جاتے ہو کہ تم سے برا کوئی نہیں۔۔ عجیب ہو بہت۔۔ اک لمحے میں دل موہ لیتے ہو اور اگلے لمحے دل توڑ دیتے ہو۔۔" وہ سنجیدگی سے بولی۔۔


"تو جب میں تمہیں اچھا لگنے لگوں، تو تم مجھے بتا دیا کرو کیونکہ جب میں تمہیں اچھا لگتا ہوں، تم تب بھی ایسے ہی ظاہر کرتی ہو کہ جیسے میں بہت برا لگ رہا ہوں۔۔" اس نے بے پناہ معصومیت سے کہا۔۔ لہجے میں خفگی نہیں تھی نہ صبح جیسی سردمہری تھی۔۔ وہ اپنے دماغ کو سمجھا لیتا مگر اپنے دل کو نہیں سمجھا سکتا تھا۔۔


"یہ جو تم فضول باتیں کرتے ہو نا،جانتے ہو پنجابی میں انہیں کیا کہتے ہیں؟" اس نے ترچھی گردن کر کے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔


"میں پنجابی نہیں ہوں!" اس نے شانے اچکا دیے۔۔


"پنجابی تو میں بھی نہیں ہوں! لیکن یہ پتا ہے کہ تمہاری ایسی باتوں کو پنجابی میں کیا کہتے ہیں؟"


"نہیں، بتاؤ!" وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔


"فضول چَولیاں کہتے ہیں!" اس نے دانت پیستے ہوئے کہا اور ایک تیکھی نگاہ اس پر ڈالی۔۔ زائم کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔۔ ماہم نے اسے بہت وقت بعد کِھل کر ہنستے دیکھا تھا اور ہمیشہ کی طرح وہ دیکھتی ہی رہ گئی۔۔ یکایک اس کی نظروں کے آگے اک جھلک دکھائی دی وہ نہ حقیقت تھی اور نہ خواب۔۔ وہ یونہی بیٹھی گردن ترچھی کیے کچھ کہہ رہی تھی اور ایسے ہی کوئی خوبرو شخص جس کا چہرہ دھندلا سا تھا قہقہہ لگا کر ہنس رہا تھا وہ ماحول سے بے خبر تھی انجانے میں حقیقت اور اس انجانی سی جھلک کو ایک کر گئی اور اس کی اور اس پرچھائی کی زبان سے ایک ساتھ نکلا تھا۔۔


"جانم۔۔۔!" زائم سناٹے میں رہ گیا۔۔ اگلے ہی لمحے ماہم بے ہوش پڑی اس کے بازوؤں کے حلقے میں تھی۔۔ کیا ہو رہا تھا آخر۔۔ کیا ہونے والا تھا اب۔۔


***********


میں بے خبر ہوں ماضی سے،
میرا حال مجھ سے روٹھا ہے،
میری کچھ تو رہنمائی کر،
مجھے، میری ذات سے ملا دے۔۔۔


وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی ہولے ہولے سانس لے رہی تھی۔۔ ڈاکٹر اقرا اس کے خون کا دباؤ دیکھ رہی تھیں۔۔ سارے گھر والے بیڈ کے گرد دائرہ بنائے کھڑے تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر فکر مندی کی لکیر تھی۔۔ ڈاکٹر اسے دیکھ کر کمرے سے باہر کی جانب بڑھیں اور سب کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔۔ سب کے سب باہر چلے گئے۔ دروازا کلچ کی آواز کے ساتھ بند ہوگیا۔۔ اس آواز کے کانوں میں پڑتے ہی ماہم نے آنکھیں کھول لیں۔۔


"کہیے!" ڈاکٹرنی نے صوفے پر براجمان ہوتے ہی دریافت کیا۔۔


"ماہم کب تک ٹھیک ہوگی؟" نفیسہ بیگم نے بے قراری سے پوچھا۔۔


"یہ تو آپ لوگوں پر منحصر ہے کہ آپ ماہم کو کتنی اچھی طرح سے یاد دلاتے ہیں۔" ڈاکٹرنی صاحبہ نے ماہرین کی طرح جواب دیا۔۔


"اسے سب یاد ہے سوائے زائم کے" راحلہ بیگم نے اپنی پریشانی گوش گزار کی۔۔


"تو زائم کو چاہئیے کہ وہ ماہم کو یاد دلائے۔" انہوں نے زائم کی طرف دیکھا۔۔ زائم نے اک نظر انہیں دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں۔۔
"اور ۔۔۔۔ زائم نے مجھے فون کیا تھا صبح۔۔۔ یقیناً انہیں کچھ بات کرنی ہے۔۔" زائم خاموش رہا۔۔


"ہم چلتے ہیں باہر۔۔ زائم ہمارے سامنے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔" سلطان صاحب نے سمجھتے ہوئے کہا۔۔ سب ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور لان کی جانب بڑھ گئے۔۔


"بولو زائم!"
"ماہم کیسے ٹھیک ہوگی؟" اس کی آواز کہیں دور کھائی سے آتی سنائی دی تھی۔۔
"میں نے تمہیں دو سال پہلے ہی بتایا تھا۔۔ کچھ بھی نہیں کہہ سکتی میں۔۔" تکلیف بھرا لہجہ تھا۔۔
"اسے لگتا ہے کہ اس کے کالج کو صرف دو مہینے گزرے ہیں۔۔"آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔۔ لہجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔۔
"ہم اسے خود بتا بھی نہیں سکتے کہ اس بات کو دو سال گزر چکے ہیں" انہوں نے یاددہانی کی۔۔ اندر کہیں بہت دور کسی انسان کی گہرائی میں کچھ ٹوٹا تھا۔۔ جسکی آواز کسی نے بھی نہیں سنی تھی۔۔

"ڈاکٹر پلیز کچھ کریں۔۔! وہ مجھے کیا سمجھتی ہے اور میں کیا ہوں۔۔ آپ سمجھ نہیں رہی ہیں کہ میرے اندر کیسا کہرام برپا ہے۔۔ کل جو ہوا ہے نا۔۔۔۔۔ میں اسے برداشت۔۔ت نہیں کر سکتا۔۔۔" وہ ایک دم پھوٹ پھٹ کر  رونے لگا۔۔ ڈاکٹر صاحبہ کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں تھیں۔۔ دو سال سے مسلسل وہ ماہم کا علاج کر رہی تھیں۔۔ اک دلی وابستگی پیدا ہو گئی تھی۔۔
"صبر کرو زائم۔۔۔ ضبط کرو اپنے جزبات کو۔۔!" انہوں نے فکرمند لہجے میں کہا۔۔
"کیسے کروں۔۔۔؟؟ اور کتنا کروں؟؟ میں ۔۔ میں اس کا شوہر ہوں ۔۔۔ اور وہ مجھے غیر محرم سمجھتی ہے۔۔ اسے ماضی کی ہر بات یاد ہے، ماسوا اس کے کہ میں اس کا شوہر ہوں۔۔۔۔"وہ رو رہا تھا۔۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ ایسے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔ ماہم اور اسکی شادی کے بعد ہوئے اس دل دہلا دینے والے حادثے کے بعد سے ہی وہ ایسا ہوگیا تھا۔۔ حساس۔۔۔ بہت حساس۔۔۔ اور صرف ماہم کو لے کر۔۔۔
"آپ جانتی ہیں کہ کل اس نے مجھے سورہ نور کا واسطہ دیا تھا۔۔۔۔ چیخ چیخ کر ایسے الفاظ کہہ رہی تھی کہ میرا دل پھٹ جانے کو تھا ۔۔ ۔۔ زندگی میں پہلی بار۔۔۔ پہلی بار میں نے اس سے نفرت کا اظہار کیا۔۔۔"وہ سر ہاتھوں میں دیے آواز کے ساتھ رونے لگا۔۔۔ کہیں کسی دروازے کی اوٹ میں کوئی سسکتا ہوا زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔
"یہ تمہارا امتحان ہے زائم! جہاں قرآن کی بات آجائے، سمجھ لو کہ تم آزمائے جا رہے ہو۔۔۔ تمہارا رب تمہیں آزما رہا ہے۔۔ اپنا صبر مت گنواؤ ۔۔!"

"کتنی لمبی آزمائش ہے اب اور۔۔۔۔۔۔ دو دن۔۔ صرف دو دن ہوئے تھے ہماری شادی کو۔۔۔۔ اور ضبط میرا دو سال طے پایا۔۔۔!" اس کی سانسیں تنگ ہو رہی تھیں۔۔ چہرہ سرخ اور آنکھیں نیم متورم سی بھیگی ہوئیں۔۔۔
"ان اللّٰہ مع الصابرین پڑھو۔۔! وہ برداشت سے زیادہ کبھی نہیں آزماتا۔۔"انہوں نے اسے دلاسا دیا۔۔ پر انہیں خبر نہیں تھی کہ کہیں کسی پردے کے پیچھے کسی اور کو بھی دلاسے کی ضرورت ہے۔۔ بہت ضرورت ہے۔۔

                       ************.                 
ماہم اور زائم کی محبت کی شادی تھی۔۔ زائم اپنے آفس سے چھٹیاں لے کر گھر والوں کے ساتھ اسلام آباد واپس آیا تھا۔۔ چار سا بہت تیزی سے گزرے تھے۔۔ اور اب اسے ماہم کی بہت کمی محسوس ہو رہی تھی۔۔ اس کی واپسی کا سن کر ماہم گھر میں اچھلتی پھر رہی تھی۔۔ خوشی تھی کہ سنبھالنے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔۔ زائم آیا اور ایک ہفتے میں ان دونوں کا نکاح طے ہو گیا۔۔ دونوں ہی بہت خوش تھے۔۔ ماہم کا کالج مکمل ہوگیا تھا۔۔ اور یونی پڑھنے کے لیے زائم نے اسے نکاح کے بعد لاہور لے جانے کا کہا تھا ۔ سب ہی بہت خوش تھے۔۔ نکاح بھی اللّٰہ کے حکم سے خیر خیریت کے ساتھ ہو گیا تھا۔۔ نکاح کے اگلے ہی دن سے ماہم نے زائم کو چھیڑنے اور پریشان کرنے کا اپنا پرانا دھندا زور و شور سے شروع کر دیا تھا۔۔ ہر تھوڑی دیر میں ماہم آگے آگے اور زائم اس کے پیچھے پیچھے۔۔ ماہم، زائم کو اپنے پیچھے دوڑا دوڑا کر ہلکان کر چکی تھی۔۔ کچھ نہ ملتا کرنے کو تو ہر کچھ وقت بعد زائم کے کان میں "جانم" سرگوشی کر کے دو تین بال اس کے سر سے الگ کرتی اور دوڑ لگا دیتی۔۔ زائم اسے پکڑ لیتا تو بہت معصومیت سے اپنے کیے سے مُکر بھی جاتی۔۔ شادی کے بعد وہ دوسرا دن تھا۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے جب وہ اپنی من پسند جگہ پر دوڑتی دوڑتی رُک گئی اور بالکنی کی ریلنگ پر آدھی جھکی مستی کرنے لگی۔۔ زائم اسے پکڑ کر اسے مزہ چکھانے والا ہی تھا کہ ماہم کا توازن بگڑ گیا ۔۔ لمحہ بھی نہیں لگا اسے بالکنی سے نیچے گرنے میں۔۔۔ زائم کی دنیا وہیں تھم گئی تھی۔۔ ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا۔۔ اللّٰہ اللّٰہ کر کے جب اسے ہوش آیا تو دو سال گزر چکے تھے۔۔ اور اس کی یادداشت میں صرف زائم کی محبت کا قصہ نہیں تھا۔۔ ماہم کے جانم کی کہانی نہیں تھی۔۔۔ بے اعتباری سے بے اعتباری تھی۔۔۔ زائم کا تو دنیا سے دل ہی اٹھ گیا تھا اور رہی سہی کسر ماہم کی اجنبیت نے پوری کردی تھی۔۔۔


                   ************.                 
زائم اپنے کمرے میں کھڑا دروازے کی طرف پشت کیے ہوئے تھا۔ اس کے ہاتھ میں موبائل تھا جس کی اسکرین کو چھو کر مسلسل کسی کام میں مصروف تھا۔۔ اچانک کسی کی آواز پر وہ چونکا۔۔
"جانم۔۔!"
بہت مانوس سی آواز تھی۔۔ وہ پیچھے مڑا اور دروازے کے باہر جھانکا۔۔ مگر کسی کو بھی نہ پایا۔۔ اپنا وہم سمجھ کر واپس موبائل کی جانب متوجہ ہو گیا۔۔ چند لمحے گزرے کے پھر آواز آئی۔۔
"جانم"
زائم نے دھیان نہیں دیا۔۔ آواز پھر سے گونجی۔۔
"جانم۔۔"
زائم نے موبائل جیب میں ڈالا اور پھرتی سے دروازے کے باہر بھاگا، ایک جھٹکے سے اس نے اس سبز رنگ کی فراک پہنی اپسرا کا ہاتھ پکڑا اور اسے دروازے کے ساتھ کی دیوار سے لگا دیا۔۔ ریشمی گہرے بھورے بال کھولے ہوئے تھے۔۔ چند بےباک لٹیں چہرے کے گرد جھول رہی تھیں۔۔ چمکتا ہوا دودھیا چہرہ اور شرم سے سرخ پڑتی ناک۔۔ واللہ! وہ آج اس پر نثار ہونے کو تھا۔۔ وہ اس کے کسرتی بازوؤں کے حلقے میں کچھ گھبرائی ہوئی سی تھی۔۔۔ گہری نیلی آنکھوں میں بے پناہ سادگی تھی۔۔ وہ ہلکے سے مسکرایا تھا۔۔ وہ یہ کھوجنا نہیں چاہتا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا۔۔ وہ ابھی بس اس لمحے کو جینا چاہتا تھا جسکا انتظار وہ دو سال سے کر رہا تھا۔۔
"ایک بار پھر سے کہنا!" اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔۔ وہ لب کاٹتی دائیں طرف رخ کیے زمین کو دیکھنے لگی۔۔ وہ اس پر جھک ے لگا تبھی اس نے اسے دھکا دیا اور بھاگنے لگی۔۔ زائم نے پُھرتی سے اس کا ہاتھ آگے بڑھ کر کھینچا۔۔ نتیجتاً اس کی پشت زائم کے سینے سے جا لگی ۔۔ زائم نے دونوں بازو اس کے گرد مضبوطی سے پھیلا لیے اور اس کے بائیں کندھے پر جھک گیا۔۔ پھر دھیرے سے اپنے ہونٹ اس کے بائیں کان کے قریب لے جا کر سرگوشی میں بولا ۔۔


"ایک بار پھر سے کہو۔۔!" اس کی گرم سانسیں ماہم کو پریشان کر رہی تھیں۔۔ وہ کچھ مزید لب اس کے رخسار کے قریب لے گیا۔۔ وہ الجھن میں پڑی تھی۔۔ اک دم سے بولی ۔۔


"جانم۔۔۔" کہتے ساتھ ہی شرما کر رخ پھیرا تھا۔۔


"وعدہ کرو زندگی بھر یہی کہو گی۔۔" زائم کی آنکھیں نم ہوئی تھیں اور لہجہ بھی بکھرا تھا۔۔۔ ماہم نے تڑپ کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔ پھر دائیں ہاتھ سے اس کے بائیں رخسار کو چھوا اور نم آنکھوں کے ساتھ بولی۔۔
"کوئی پوچھے گا مجھ سے تو کہہ دوں گی، میری محبت کی انتہا ہو تم ۔۔ جانم۔۔!" وہ پوری اس کی جانب گھوم چکی تھی۔۔ اب اس کا بایاں ہاتھ زائم کے دائیں کندھے پر تھا ۔۔
"بہت رومانٹک ہو رہی ہو جانم۔۔۔!" وہ آنکھوں میں شرارت لیے مسکرا کر بولا۔۔ ماہم ایک دم کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔
زائم اپنی جانم کی انگلی تھامے اسے گول گول گھما رہا تھا۔۔ اور ماہم اپنے جانم کی انگلی تھامے کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔۔۔


ختم ہو گئی۔۔۔۔


زائم کی محبت اور انتظار کی کہانی۔۔۔
ماہم کی معصومیت اور پیار کی کہانی۔۔
اک خوشی اور اک اقرار کی کہانی۔۔۔
محبتوں کے سفر میں اظہار کی کہانی۔۔۔❤❤❤


Comments

Popular posts from this blog

Novels by Anoosha M.Rafiq Aarzoo

IshqDarAzdawaj Complete Novelette by Anoosha Aarzoo

Author Anoosha Muhammad Rafique (Aarzoo)